از: مفتی محمد
راشد ڈسکوی، استاذ ورفیق شعبہٴ
تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
رتبے
کے اعتبار سے عبادات کی دو قسمیں
انسان جتنی بھی
عبادات سرانجام دیتا ہے ان کی اللہ رب العزت کے ہاں مرتبے کے اعتبار
سے دو قسمیں ہیں،ایک :جو مکان کے بدلنے کے ساتھ مرتبے کے اعتبار
سے بدلتی رہتی ہیں، دوسری:جو زمانے کے بدلنے سے مرتبے کے
اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں:
پہلی
قسم کی مثال
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے
کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ”کسی شخص کا اپنے گھر
میں اکیلے نماز ادا کرنا ایک نماز کے برابر اجر رکھتا ہے اور
محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنا پچیس نمازوں کے برابراجر رکھتا
ہے اورجامع مسجد میں نماز ادا کرنا پانچ سو نمازوں کے برابراجر رکھتاہے
اورمسجدِ اقصیٰ میں نماز ادا کرناپچاس ہزار نمازوں کے برابر اجر
رکھتا ہے اور مسجد حرام میں نماز ادا کرنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر
اجر رکھتا ہے اور مسجد نبوی ﷺ میں نماز ادا کرنا پچاس ہزار
نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے “۔(المعجم الکبیر للطبرانی،رقم
الحدیث:۷۰۰۸، دارالحرمین، بیروت)
اسی طرح حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:جو شخص
اپنے گھر میں وضو کر کے مسجدِ قباء میں آئے اور وہاں نماز ادا کرے تو
اس کے لیے ایک عمرہ ادا کرنے کے برابر اجر لکھا جاتا ہے،(سنن ابن
ماجہ،باب ما جاء فی الصلاة فی مسجد قباء،رقم الحدیث: ۱۴۱۲،داراحیاء الکتب العربیہ)۔
ان دونوں مثالوں میں دیکھیں کہ مکان
بدلا،جگہ بدلی تو عبادت کی قیمت بھی بدلتی گئی،ایک
ہی نماز ہے؛ لیکن اس کا اجر ،جگہ کے بدلنے سے کہیں سے کہیں
پہنچ گیا۔
دوسری
قسم کی مثال
ایک شخص کسی بھی عام دن میں روزہ
رکھے تو اسے ایک روزے کا اجر ملے گا؛لیکن رمضان کا ایک روزہ
اتنا اجر رکھتا ہے کہ ساری زندگی روزے رکھنے کا اتنا اجر نہیں
بن سکتا،اسی طرح کچھ دوسرے ایام ہیں جن میں روزے کا اجر
بدلتا جاتا ہے،مثلاً:حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ نبی اکرم ﷺ سے ۹ ویں
ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کے اجر کے بارے میں سوال کیا گیا
، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:”اس ایک دن کا روزہ رکھنا، اس
شخص کے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(صحیح
مسلم ،رقم الحدیث:۱۱۶۲، بیت الأفکار)۔
دوسری روایت میں ہے کہ:”اس دن کاروزہ موجودہ
گذرنے والے سال اور آنے والے سال کے (صغیرہ )گناہوں کا کفارہ بن جاتا
ہے“،(المعجم الکبیر:۵۰۸۹،مکتبة العلوم والحکم)۔ ”اسی طرح ۹ویں اور ۱۰ویں محرم کا روزہ بھی ایک سال گذشتہ کے (صغیرہ)گناہوں
کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(صحیح مسلم،رقم:۱۱۶۲،بیت الافکار)۔
اس کے علاوہ کسی بھی نفل عمل کے بارے میں دیکھیں
کہ عام دنوں میں اس کا ایک ہی اجر ہے؛ لیکن یہی
نفل عمل رمضان المبارک میں فرائض کے برابر حصول ِ اجر کا ذریعہ بن
جاتا ہے۔ دن میں ادا کی گئی نفل نماز اور رات کے وقت ادا
کی گئی نفل نماز (نمازِ تہجد)کے اجر میں زمین آسمان کا
فرق ہے،نمازِ تہجد کو حدیثِ پاک میں ”أفضلُ
الصلاة بعد الفریضة“کہا گیا
ہے،(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:۱۱۶۳،بیت الأفکار)،اور پھر صرف اسی پر بس نہیں؛بلکہ
عام راتوں میں اد ا کی گئی نفل نمازیں ایک طرف اور
لیلة القدر میں ادا کی گئی نفل نماز دوسری
طرف،دونوں کے اجروثواب میں مشرق و مغرب کا فرق ہے ،اس کے بارے میں
توفرمایا گیا کہ﴿لیلةُ
القَدْرِ خیرٌ مِنْ ألفِ شَھْر﴾۔
مندرجہ بالا مثالوں سے بخوبی واضح ہوگیاکہ زمانے
کے بدلنے سے اللہ کے ہاں عبادات کا بھی رتبہ بدل جاتا ہے ؛ لیکن اس
جگہ ایک بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ مختلف
زمانوں میں، جن جن میں عبادات سے متعلق اجر و ثواب کی زیادتی
بتلائی گئی ہے، وہ سب کی سب ”منزّل من اللہ“ ہیں ، ان کے
اجر و ثواب کی زیادتی کی خبر بذریعہٴ وحی
بزبانِ نبوت معلوم ہوئی ہے،انسان خود اپنی چاہت سے اپنی سوچ سے
کسی خاص دن میں کسی خاص عبادت کا الگ سے کوئی اجر مقرر نہیں
کر سکتا۔
رجب
کا مہینہ
سال کے خاص مہینوں میں ایک خاص مہینہ
”رجب المرجب “ بھی ہے،اس مہینے کی سب سے پہلی خصوصیت
اس مہینے کا ”اشہر حرم “میں سے ہونا ہے،(صحیح البخاری،کتاب
بدء الخلق،باب ماجآء فی سبع أرضین،رقم الحدیث:۳۱۹۷،دار طوق النجاة)۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
کہ:” ملتِ ابراہیمی میں یہ چار مہینے ادب واحترام
کے تھے ،اللہ تعالی ٰ نے ان کی حرمت کو برقرار رکھا اور مشرکینِ
عرب نے جو اس میں تحریف کی تھی اس کی نفی
فرما دی“۔(معارف القرآن للکاندھلوی:۳/۴۳۱،بحوالہ حاشیہ سنن ابن ماجہ، ص:۱۲۵)
رجب
کی پہلی رات
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب نبیِ
اکرم ﷺ رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا
کرتے تھے: ”اللّٰھُمَّ بَارِکْ
لَنَا فِي رَجَبَ وَشَعْبَانَ و بلِّغْنا رمَضَان“(مشکاة المصابیح، کتاب الجمعہ ،الفصل الثالث،رقم الحدیث:۱۳۶۹،دارالکتب العلیہ) ترجمہ:اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور
شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما،اور ہمیں رمضان کے مہینے
تک پہنچا دے۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی
تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ”ان مہینوں میں ہماری
طاعت و عبادت میں برکت عطا فرما،اور ہماری عمر لمبی کر کے رمضان
تک پہنچا؛ تا کہ رمضان کے اعمال روزہ اور تراویح وغیرہ کی سعادت
حاصل کریں“۔(مرقاة المفاتیح:۳/۴۱۸،دارالکتب العلمیہ)
ماہِ رجب کے چاند کو دیکھ کر نبی کریم ﷺ
دعا فرماتے تھے ،اسی کے ساتھ بعض روایات سے اس رات میں قبولیتِ
دعا کا بھی پتہ چلتا ہے ، جیسا کہ ”مصنف عبدالرزاق“میں حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کیا گیا ہے کہ
انہوں نے فرمایا :”پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں
دعا رد نہیں کی جاتی وہ شبِ جمعہ،رجَب کی پہلی رات،
شعبان کی پندرہویں رات،عید الفطر کی رات اور عید
الاضحیٰ کی رات“ ہے۔(مصنف عبد الرزاق،رقم الحدیث: ۷۹۲۷،۴/۳۱۷،المجلس العلمی)
ماہِ
رجب میں روزے
رجب میں روزہ رکھنے سے متعلق الگ سے کوئی خاص فضیلت
منقول نہیں ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک کتاب ”تبیینُ العَجَبْ بما وَرَدَ في فَضْلِ رَجَب“ لکھی،جس میں انھوں نے بہت سی احادیث کو
جمع کر کے ان کی اسنادی حیثیت کو واضح کیا ہے جو
فضائل ِ رجب سے متعلق نہایت ضعیف یا موضوع تھیں آپ نے
فرمایا کہ:ماہِ رجب میں خاص رجب کی وجہ سے کسی روزے کی
مخصوص فضیلت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے،(تبیین
العجب بما ورد فی فضل رجب، مقدمہ، ص:۱۱)
البتہ روزہ خود ایک نیک عمل ہے اور پھر رجب کا
”اشہرِحرم“ میں سے ہونا ،تو یہ دونوں مل کر عام دنوں سے زائد حصول ِ
اجر کا باعث بن جاتے ہیں؛ لہٰذا اس مہینے میں کسی
بھی دن کسی خاص متعین اجر کے اعتقاد کے بغیر روزہ رکھنا، یقینا
مستحب اور حصول ِخیر کا ذریعہ ہو گا،مولانا اشرف علی تھانوی
صاحب رحمہ اللہ نے (امداد الفتاویٰ:۲/۸۵ میں)ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا
کہ:”․․․․․دوسری حیثیت رجب میں
صرف” شہر ِ حرام“ ہونے کی ہے، جو اس(رجب)میں اور بقیہ اشہرحُرم
میں مشترک ہے، پہلی حیثیت سے قطعِ نظر صرف اس دوسر ی
حیثیت سے اس میں روزہ رکھنے کو مندوب فرمایا گیا“۔
چنانچہ کسی دن کو خاص کر کے روزہ رکھنے اور اس کے بارے
میں عجیب و غریب فضائل بیان کرنے کی مثال ۲۷/رجب کا روزہ ہے ، جو عوام الناس میں ”ہزاری روزہ “ کے
نام سے مشہور ہے۔(اس پر تفصیلی کلام آگے آرہا ہے)
ماہِ
رجب کی بدعات
اسلام سے قبل ہی سے ماہِ رجب میں بہت سی
رسومات اور منکرات رائج تھیں، جن کو اسلام نے یکسر ختم کرکے رکھ دیا،ان
میں رجب کے مہینے میں قربانی کا اہتمام ،جس کو حدیث
پاک کی اصطلاح میں ”عتیرہ “ کے نام سے واضح کیا گیا
ہے، اسی مہینے میں زکاة کی ادائیگی اور پھر
موجودہ زمانے میں ان کے علاوہ بی بی فاطمہ کی کہانی
،۲۲/
رجب کے کونڈوں کی
رسم،۲۷/
رجب کی شب”جشنِ شب ِ
معراج“اور اگلے دن کا روزہ جس کو”ہزاری روزہ “کہا جاتا ہے،وغیرہ وغیرہ
سب ایسی رسومات و بدعات ہین جن کا اسلام میں کوئی
ثبوت نہیں ہے ،ذیل میں ۲۷/ رجب سے متعلق ہونے والی منکرات اور ہزاری روزے سے متعلق
کچھ عرض کیا جائے گا۔
ستائیسویں
رجب / شبِ معراج
رجب کی ستائیسویں شب میں موجودہ
زمانے میں طرح طرح کی خرافات پائی جاتی ہیں، اس رات
حلوہ پکانا،رنگین جھنڈیاں ، آتش بازی اور مٹی کے چراغوں
کو جلا کے گھروں کے درو دیوار پر رکھنا وغیرہ وغیرہ،جن کا شرعی
حکم یہ ہے کہ اگر اِن کو عبادت اور ثواب سمجھ کے کیا جاتا ہے تو یہ
بدعت کہلائیں گی؛کیونکہ نہ تو اِن سب اُمور کو ہمارے نبی
کریم ﷺ نے بنفسِ نفیس کیا ،نہ ان کے کرنے کا حکم کیا
اور نہ ہی آپ ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا
، اور نہ ہی کرنے کا حکم کیا۔اور اگر ان اُمور کو عبادت سمجھ کے
نہیں کیا جاتا؛ بلکہ بطورِ رسم کیا جاتا ہے تو ان میں
فضول خرچی،اسراف اور آتش بازی کی صورت میں جانی
نقصان کا خدشہ، سب اُمور شرعاً حرام ہیں۔
اِن تمام اُمور کو اِس بنیاد پر سرانجام دیا جاتا
ہے کہ ۲۷ ویں رجب میں نبیِ کریم ﷺ کو سفرِ معراج
کروایا گیا،عوام کے اس رات اِس اہتمام سے پتہ چلتا ہے کہ رجب کی
ستائیسویں شب کو ہی حتمی اور قطعی طور پر شبِ معراج
سمجھا جاتا ہے ؛حالانکہ آپ ﷺ کو سفرِ معراج کب کروایا گیا؟ اِس
بارے میں تاریخ،مہینے؛بلکہ سال میں بھی بہت زیادہ
اختلاف پایا جاتا ہے؛جسکی بناء پر ستائیسویں شب کو ہی
شبِ معراج قرار دینا یکسر غلط ہے،اگرچہ مشہور قول یہی ہے۔
دوسری بات ! شبِ معراج جِس رات یا مہینے میں
بھی ہو ،اُس رات میں کسی قسم کی بھی متعین
عبادت شریعت میں منقول نہیں ہے،یہ الگ بات ہے کہ اِس رات
میں سرکارِ دو عالم حضرت محمد ﷺ کو بہت بڑا شرف بخشا گیا،آپ کے
ساتھ بڑے اعزاز و اکرام والا معاملہ کیا گیااور آپ ﷺ کو
آسمانوں پر بُلا کے بہت سے ہدیے دئے گئے؛ لیکن امت کے لیے اس
بارے میں کسی قسم کی کوئی فضیلت والی بات کسی
نے نقل نہیں کی۔
شبِ
معراج افضل ہے یا شبِ قدر؟
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے
پوچھا گیا کہ اِن دونوں راتوں (شبِ قدر اور شبِ معراج) میں سے کون سی
رات افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرم ﷺ کے حق میں
لیلة المعراج افضل ہے اور امت کے حق میں لیلة القدر ، اس لیے
کہ اِس رات میں جن انعامات سے نبی اکرم ﷺ کو مختص کیا گیا
وہ ان (انعامات ) سے کہیں بڑھ کے ہیں جو (انعامات آپ ﷺ کو) شبِ
قدر میں نصیب ہوئے،اور امت کو جو حصہ (انعامات)شبِ قدر میں نصیب
ہوا ،وہ اس سے کامل ہے جو(امت کو شبِ معراج میں ) حاصل ہوا ، اگرچہ امتیوں
کے لیے شبِ معراج میں بھی بہت بڑا اعزاز ہے؛ لیکن اصل فضل
،شرف اور اعلیٰ مرتبہ اُس ہستی کے لیے ہے جِس کو معراج
کروائی گئی،ﷺ۔(مجموع الفتاویٰ،کتاب الفقہ
،کتاب الصیام،رقم الحدیث: ۷۲۳،۲۵ / ۱۳۰،دار الوفاء)
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی
قسم کا ایک لمبا سوال و جواب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نقل کیا
ہے ،اور اس کے بعدلکھا ہے کہ ”اِس جیسے اُمور میں کلام کرنے کے لیے
قطعی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے اور اِن کا علم ”وحی کے بغیر
ممکن نہیں“ اور اِ س معاملے میں کسی تعیین کے بارے
میں وحی خاموش ہے؛ لہٰذا بغیر علم کے اِس بارے میں
کلام کرنا جائز نہیں ہے“۔(زاد المعاد، التفاضل بین لیلة
القدر و لیلة الإسراء:۱/۵۷،۵۸،موٴسسة الرسالة)․
چنانچہ ! جب اتنی بات متعین ہو گئی کہ امت
کے حق میں شبِ معراج کی کوئی فضیلت منصوص نہیں،
علاوہ اس بات کے کہ اس رات کا ۲۷/ رجب کو ہی ہونا بھی قطعی نہیں ہے تو اِس
رات کو یا اِس کے دن کو کسی عبادت کے لیے جداگانہ طور پر متعین
کرنا کسی طرح درست نہیں ہے،اب ذیل میں شبِ معراج کے وقتِ
وقوع کے بارے میں جمہور علماء کی تحقیق پیش کی جائے
گی:
واقعہ
معراج کب پیش آیا؟
علماءِ سیر کا اس میں اختلاف ہے کہ آپ ﷺ
کو معراج کب کروائی گئی ،اس بارے میں (یعنی جِس سال
میں معراج کروائی گئی ) عموماً دس اقوال ملتے ہیں:
اکثرعلماء کے نزدیک اتنی بات تو متعین ہے کہ واقعہ معراج ”بعثت“
کے بعد پیش آیا ؛البتہ بعثت کے بعد کے زمانے میں اختلاف ہے،
چنانچہ (۱)ابن سعد کا
قول ہے کہ معراج ہجرت سے ایک سال قبل کروائی گئی۔ (۲) ابن جوزی کا
قول ہے کہ معراج ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ہوئی۔ (۳) ابو الربیع بن سالم کا کہنا ہے کہ ہجرت سے چھ ماہ قبل ہوئی۔(۴) ابراہیم الحربی کا کہنا ہے کہ ہجرت سے گیارہ ماہ قبل
ہوئی۔ (۵)
ابن عبد البرّ کی رائے ہجرت سے ایک سال اور دو
ماہ قبل کی ہے۔ (۶) ابن
فارس کی رائے ہجرت سے ایک سال اور تین
ماہ قبل کی ہے ۔ (۷) سدّی
نے ہجرت سے ایک سال اور پانچ ماہ قبل کا قول نقل کیا ہے۔ (۸) ابن الأثیر نے
ہجرت سے تین سال قبل کا قول اختیار کیا ہے۔ (۹) زہری سے
نقل کیا گیا ہے کہ واقعہ معراج ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا۔
(۱۰)
ایک قول بعثت سے
پہلے وقوعِ معراج کا بھی ہے؛ لیکن یہ قول شاذ ہے، اس کو تسلیم
نہیں کیا گیا۔
اِن اقوال میں سے سب سے زیادہ مشہور قول جس کو
ترجیح دی گئی ہے وہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔(فتح
الباری:۷/۲۵۴،دارالسلام،سبلُ الہدیٰ والرشاد:۳/۶۵ ،دارالکتب العلمیہ)
معراج
کس مہینے میں ہوئی؟
جس طرح وقوع ِ معراج کے سال میں اختلاف ہے اسی
طرح مہینے کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کہ
واقعہِ معراج کس مہینے میں پیش آیا،اس بارے میں بعض
جگہ پانچ مہینوں کا ذکر مختلف اقوال میں ملتا ہے اور بعض جگہ چھ مہینوں
کا۔ (۱)
بہت سارے علماء کے نزدیک
ربیع الاول کے مہینے میں واقعہ معراج پیش آیا۔
(۲)
ابراہیم بن اسحاق
الحربی نے ربیع الاخر کے مہینے میں
معراج کا ہونا لکھا ہے۔ (۳) عبدالغنی
بن سرور المقدسی نے رجب کے مہینے کو ترجیح دی ہے،یہی
قول مشہور بھی ہے۔(۴) سدّی
نے شوّال میں معراج کا ہونا لکھا ہے(۵) ابن فارس نے
ذی الحجہ میں معراج کا ہونا لکھا ہے،(شرح المواہب للزرقانی:۲/۷۰،دارالکتب العلمیہ، عمدة القاری:۱۷/۲۷،دارالکتب العلمیہ)
معراج
کس رات میں ہوئی؟
علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں تین
اقوال مشہورہیں :پہلا قول جمعے کی رات کا ہے،دوسرا قول ہفتہ کی
رات اور تیسرا قول پیر کی رات کا ہے؛چونکہ معراج کی تاریخ
میں سخت اختلاف ہے؛ اس لیے رات کی تعیین میں
حتمی قول اختیار کرنا آسان نہیں ہے۔( سُبُل الہدیٰ
والرشاد: ۳/۶۵ ،دارالکتب العلمیہ)۔
تعیین
شبِ معراج میں اتنا اختلاف کیوں ؟
علماء ِسیر نے خوب تحقیق کے بعد اُن صحابہ کی
تعداد اور نام لکھے ہیں ،جنہوں نے قصہٴ معراج کو نقل کیا ،کسی
نے مختصر اور کسی نے تفصیل سے؛چنانچہ علامہ قسطلانی نے (المواہب اللدنیہ
:۲/
۳۴۵، میں)چھبیس
صحابہ کے نام شمار کیے ہیں، اور علامہ زرقانی نے اس کتاب کی شرح میں ان صحابہ
کے ناموں میں اضافہ کرتے ہوئے پینتالیس کی تعداد اور ان
کے نام ذکر کئے ہیں،(شرح العلامة الزرقانی : ۸/۷۶،دارالکتب العلمیہ)۔اس تفصیل کے بعد قابلِ غور
بات یہ ہے کہ اس قصے کی تفصیل بیان کرنے والے اصحاب ِ
رسول کی اتنی بڑی تعداد ہے اور اس کے باوجود جس رات میں یہ
واقعہ پیش آیا اس رات کی حتمی تاریخ کسی نے
بھی نقل نہیں کی ،آخر کیوں؟کتبِ سیر میں غور
کرنے کے بعد سوائے اس کے کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی
کہ اگرچہ اِس رات میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیا؛ لیکن اس کی
بنا پر اس رات کو کسی مخصوص عبادت کے لیے متعین کرنا نہ تو کسی
کو سُوجھا اور نہ ہی زبانِ نبوت سے اس بارے میں کوئی حکم صادر
ہوا ،اور نہ ہی اس رات کی اس طرح سے تعظیم کسی صحابیِ
رسول کے ذہن میں پیدا ہوئی،لیکن اس کے باوجود یہ
سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ اگرچہ اس سے کوئی حکم ِ شرعی
وابستہ نہیں تھا تاہم بمقتضائے محبت ہی اس طرف توجہ کی جاتی
، جب حضورِ اکرم ﷺ کے خدوخال اور نقش و نگار کو بھی بمقتضائے محبت
ضبط کرنے کا اہتمام کیا گیا تو آخر اس شب سے اس قدر بے اعتنائی
کی کیا وجہ؟تو اس سوال کے جواب میں حضرت مولانا مفتی رشید
احمدصاحب لدھیانوی
فرماتے ہیں:”کہ اس شب میں خرافات و بدعات کی بھر مار کا شدید
خطرہ تھا، حضور ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سدّ باب کی
غرض سے اس کو مبہم رکھنا ہی ضروری سمجھا “(سات مسائل،ص:۱۶،دارالافتاء والارشاد ،کراچی)۔
صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم کا عشقِ رسول ﷺ
کیا کسی بھی درجے میں یہ بات
سوچی جا سکتی ہے کہ العیاذ باللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
کو نبی اکرم ﷺ سے عشق و محبت نہ تھی، یا اُن کو اس رات میں
نبی اکرم ﷺ کو ملنے والے اتنے بڑے اعزاز کی خوشی نہیں
ہوئی،ہر گز نہیں ! اُن سے بڑا عاشقِ رسول کوئی اور ہو ہی
نہیں سکتا ،لیکن اُن کا عشق حقیقی تھا، جس کی بنا
پر اُن سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو ہی نہیں سکتا تھا ،جو
سرکارِ دو عالم ﷺ کی منشأ کے خلاف ہوتا،وہ تو خیر کے کاموں کی
طرف بہت تیزی سے لپکنے والے تھے،لہذا اگر اس رات میں کوئی
مخصوص عبادت ہوتی تو وہ ضرور اسے سرانجام دیتے اور اسے امت تک بھی
پہنچاتے،لیکن ایسا کوئی بھی اقدام صحابہ رضوان اللہ اجمعین
کی تاریخ میں نہیں ملتا،تو جب کوئی خیر کا
کام ان کو نہیں سُوجھا تو وہ ”خیر “ہو ہی نہیں سکتا بلکہ
وہ بدعت ہو گا، جیسا کہ علامہ شاطبی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا
قول نقل کیا ہے : ”کلُّ
عبادةٍ لم یَتَعبَّدْھا أصحابُ رسولِ اللہ ﷺ فلا تَعْبُدُوھا“(الاعتصام
للشاطبي،باب فی فرق البدع و المصالح المرسلة: ۱/۴۱۱، دارالمعرفة) ترجمہ:”ہر وہ عبادت جسے صحابہٴ کرام رضی
اللہ عنہم نے نہیں کیا ،سو تم بھی اسے مت کرو“۔
بدعت
کی پہچان کے لیے معیار
تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہو ہے کہ : ”وأمّا أھلُ السنةِ والجماعةِ فیقولون فيکلِ فعلٍ و
قولٍ لم یثبُت عن الصحابة، ھو بدعةٌ لأنہ لو کان خیراً سبقونا إلیہ،
إنھم لم یترکوا خصلةً من خصالِ خیرٍ إلاّ و قد بادَرُوا إلیھا“
(تفسیر ابن کثیر، الأحقاف:۱۱، دارالسلام)
ترجمہ:”اہل سنت والجماعة یہ فرماتے ہیں کہ جو فعل
حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم سے ثابت نہ ہو تو اس کا کرنا بدعت ہے کیونکہ
اگر وہ اچھا کام ہوتا تو ضرور حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہم سے پہلے
اُس کام کو کرتے، اِس لیے کہ انہوں نے کسی نیک اور عمدہ خصلت کو
تشنہ عمل نہیں چھوڑا بلکہ وہ ہر(نیک ) کام میں سبقت لے گئے“۔
اصلاحی
خطبات سے ایک اقتباس
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید
مجدہ فرماتے ہیں کہ :”۲۷/رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے
کہ یہ شب ِ معراج ہے ، اور اس شب کو بھی اسی طرح گذارنا چاہیے
جس طرح شب قدر گذاری جاتی ہے اور جو فضیلت شبِ قدر کی ہے
، کم وبیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی
جاتی ہے؛ بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا
کہ ”شبِ معراج کی فضیلت شبِ قدر سے بھی زیادہ ہے“ اور پھر
اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کر دئیے
کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں اور ہر رکعت میں
فلاں فلاں سورتیں پڑھی جائیں ، خدا جانے کیا کیا
تفصیلات اس نماز کے بارے میں مشہور ہو گئیں ، خوب سمجھ لیجئے:یہ
سب بے اصل باتیں ہیں ،شریعت میں ان کی کوئی
اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ۲۷/ رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں
کہا جا سکتاکہ یہ وہی رات ہے، جس میں نبی کریم ﷺ
معراج پر تشریف لے گئے تھے ؛ کیونکہ اس باب میں مختلف روایتیں
ہیں ، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول
کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں
رجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان
کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں
کہا جا سکتاکہ کون سی رات صحیح معنوں میں معراج کی رات تھی،
جس میں آنحضرت ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے اس سے آپ خوداندازہ
کر لیں کہ اگر شب معراج بھی شبِ قدر کی طرح کوئی مخصوص
عبادت کی رات ہوتی،اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام
ہوتے جس طرح شبِ قدر کے بارے میں ہیں، تو اس کی تاریخ اور
مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا؛لیکن چونکہ شب معراج کی
تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷/رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں اور اگر بالفرض یہ
تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ ﷺ ۲۷/رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے ، جس میں
یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیااور جس میں اللہ تعالیٰ
نے نبی کریم ﷺ کو یہ مقام ِ قرب عطا فرمایا اور
اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لیے
نمازوں کا تحفہ بھیجا، تو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت
والی تھی ، کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کیا
شبہ ہو سکتا ہے ؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ۲۷/رجب کی شب کو حاصل نہیں ۔
پھردوسری بات یہ ہے کہ (بعض روایات کے
مطابق)یہ واقعہ معراج سن ۵/ نبوی
میں پیش آیا ، یعنی حضور ﷺ کے نبی
بننے کے پانچویں سال یہ شبِ معراج پیش آئی، جس کا مطلب یہ
ہے کہ اس واقعہ کے بعد ۱۸/
سال تک آپ ﷺ نے شبِ
معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو ، یا اس کو منانے
کا حکم دیاہو ، یااس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو ، یا
اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شبِ قدر کی
طرح جاگنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے، نہ تو آپ کا ایسا کو ئی
ارشاد ثابت ہے ،اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام
ثابت ہے ، نہ خود آپ ﷺ جاگے اور نہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
پھر سرکارِ دو عالم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے
جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینا میں
موجود رہے ، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت
نہیں ہے، جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۲۷/رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو؛ لہٰذا جو چیز
حضورِ اکرم ﷺ نے نہیں کی اور جو چیز آپ کے صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم نے نہیں کی ، اس کودین کا حصہ قرار دینا ، یا
اس کو سنت قراردینا، یا اس کے ساتھ سنت جیسامعاملہ کرنا بدعت
ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (العیاذ باللہ)حضور ﷺ
سے زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی
ہے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ
مجھے عبادت کا ذوق ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عمل کیا
تو میں اس کو کروں گا تو اس کے برابر کوئی احمق نہیں“(اصلاحی
خطبات :۱/۴۸-۵۱،میمن اسلامک پبلشرز)
”حقیقت یہ
ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحہم اللہ تعالیٰ
اور تبع تابعین رحہم اللہ تعالیٰ دین کو سب سے زیادہ
جاننے والے ، دین کو خوب سمجھنے والے ، اور دین پر مکمل طور پر عمل
کرنے والے تھے ، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان سے زیادہ
دین کو جانتا ہوں ، یا ان سے زیادہ دین کا ذوق رکھنے والا
ہوں، یا ان سے زیادہ عبادت گذار ہوں تو حقیقت میں وہ شخص
پاگل ہے، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا؛ لہٰذا اس رات میں
عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے ، یوں تو ہر رات میں اللہ
تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی
بہتر ہے؛لہٰذا آج کی رات بھی جاگ لیں، لیکن اس رات
میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز
نہیں ہونا چاہئے۔“(اصلاحی خطبات:۱/۵۱،۵۲، میمن اسلامک پبلشرز)
ہزاری
روزہ
عوام میں یہ مشہور ہے کہ ۲۷/ رجب کو روزہ کی بڑی فضیلت ہے؛ حتی کہ اس
بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس ایک دن کے روزے کا اجر ایک
ہزار روزے کے اجر کے برابر ہے، جس کی بنا پر اسے ”ہزاری روزے “کے نام
سے جاناجاتا ہے؛حالانکہ شریعت میں اس روزے کی مذکورہ فضیلت
صحیح روایات میں ثابت نہیں ہے،اس بارے میں اکثر روایات
موضوع ہیں اور بعض روایات جو موضوع تو نہیں، لیکن شدید
ضعیف ہیں، جس کی بنا پر اس دن کے روزے کے سنت ہونے کے اعتقاد یا
اس دن کے روزے پر زیادہ ثواب ملنے کے اعتقاد پر روزہ رکھنا جائز نہیں
ہے،اس بارے میں اکابرین، علماء امت نے امت کے ایمان و اعمال کی
حفاظت کی خاطر راہنمائی کرتے ہوئے فتاوی صادر فرمائے ،جو ذیل
میں پیش کئے جارہے ہیں :
”فتاویٰ
رشیدیہ “:
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ
ماہِ رجب میں ہونے والی ”رسمِ تبارک“ اور ”رجب کے ہزاری روزے“ کی
تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اِن دونوں امور کاا لتزام نادرست اور بدعت
ہے اور وجوہ اِن کے ناجائز ہونے کی (کتاب)اصلاح الرسوم، براہینِ قاطعہ
اور اریجہ میں درج ہیں“(فتاویٰ رشیدیہ،ص:۱۴۸،ادارہ اسلامیات)۔
”فتاویٰ
محمودیہ“ :
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب رحمہ
اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”ماہِ رجب میں تواریخ
ِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وارد ہوئی
ہیں ؛ لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہٴ
صحت کو نہیں پہنچتیں ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ
نے ”ما ثبت بالسنة“میں ذکر کیا ہے کہ:”بعض (روایات) بہت ضعیف
اور بعض موضوع(من گھڑت)ہیں“۔(فتاویٰ محمودیہ:۳/۲۸۱،جامعہ فاروقیہ،کراچی)
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں
لکھتے ہیں کہ:”عوام میں ۲۷/ رجب کے متعلق بہت بڑی فضیلت مشہور ہے؛ مگر وہ غلط ہے،
اس فضیلت کا اعتقاد بھی غلط ہے، اِس نیت سے روزہ رکھنا بھی
غلط ہے،”ما ثبت بالسنة “میں اِ س کی تفصیل موجود ہے۔“(فتاویٰ
محمودیہ:۱۰/۲۰۲،جامعہ فاروقیہ،کراچی)
”فتاویٰ
دارالعلوم دیوبند“ :
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ
لکھتے ہیں کہ:”ستائیسویں رجب کے روزے کو جسے عوام”ہزارہ
روزہ“کہتے ہیں اور ہزار روزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں ، اس کی
کچھ اصل نہیں ہے۔ “(فتاویٰ دارالعلوم دیو بند مکمل
و مدلل:۶/۴۰۶، مکتبہ حقانیہ ، ملتان)
”فتاویٰ
رحیمیہ “:
حضرت مولانا مفتی سید عبد الرحیم صاحب
لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :”ستائیسویں رجب کے بارے
میں جو روایات آئی ہیں، وہ موضوع اور ضعیف ہیں
، صحیح او ر قابل ِ اعتماد نہیں؛ لہٰذا ستائیسویں
رجب کا روزہ عاشوراء کی طرح مسنون سمجھ کر ہزار روزوں کا ثواب ملے گا، اس
اعتقاد سے رکھنا ممنوع ہے“۔(فتاویٰ رحیمیہ :۷/۲۷۴، دارالاشاعت،کراچی)
”بہشتی
زیور “:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (رجب کے
چاند کے بارے میں )لکھتے ہیں کہ:”اس کو عام لوگ ”مریم روزہ کا
چاند“کہتے ہیں،اور اس کی ستائیس تاریخ میں روزہ
رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں کہ ایک روزہ میں ہزار روزوں کا ثواب
ملتا ہے، شرع میں اس کی کوئی قوی اصل نہیں ، اگر
نفل روزہ رکھنے کو دل چاہے، اختیار ہے، خدا تعالیٰ جتنا چاہیں
ثواب دیدیں، اپنی طرف سے ہزار یا لاکھ مقرر نہ سمجھے ،
بعضی جگہ اس مہینے میں ”تبارک کی روٹیاں“پکتی
ہیں، یہ بھی گھڑی ہوئی بات ہے، شرع میں اس کا
کوئی حکم نہیں ، نہ اس پر کوئی ثواب کا وعدہ ہے، اس واسطے ایسے
کام کو دین کی بات سمجھنا گناہ ہے“۔(بہشتی زیور:۶/۶۰،دارالاشاعت، کراچی)
”عمدة
الفقہ“:
حضرت مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ
لکھتے ہیں:”ہزاری روزہ یعنی ستائیس رجب المرجب کا
روزہ ، عوام میں اس کا بہت ثواب مشہور ہے، بعض احادیثِ موضوعہ (من
گھڑت احادیث)میں اس کی فضیلت آئی ہے؛ لیکن صحیح
احادیث اور فقہ کی معتبر کتابوں میں اس کی کوئی اصل
نہیں ہے؛ بلکہ بعض روایات میں ممانعت آئی ہے، پس اس کو
ضروری اور واجب کی مانند سمجھ کر روزہ رکھنا یا ہزار روزہ کے
برابر ثواب سمجھ کر رکھنا بدعت و منع ہے“۔(عمدة الفقہ: ۳/۱۹۵،زوار اکیڈمی)
خلاصہ
کلام
مندرجہ بالا تفصیل سے ۲۷/ رجب کے روزے کی بے سند و بے بنیادمشہور ہوجانے والی
فضیلت کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے،کہ اس دن
کو خاص فضیلت والا دن سمجھ کر یا خاص عقیدت کے ساتھ مخصوص ثواب
کے اعتقاد سے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
اللہ رب العزت محض اپنے فضل وکرم سے صحیح نہج پر اپنے
احکامات پر عمل پیرا ہونے کی اور ان کو اوروں تک پہچانے کی توفیق
عطا فرمائے،آمین۔
# # #
---------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 95 ، شعبان 1432 ہجری مطابق جولائى 2011ء